الجزیرہ کے طابق امریکی عہدہ دار نے واضح کیا ہے کہ افغانستان کے حوالے سے امریکی اسٹریٹیجی میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔
انکا کہنا ہے کہ ہماری پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے مگر یہ کہ طالبان سفارت کاروں کے انخلا میں رکاوٹ ڈالے تو معاملہ کچھ اور ہوگا۔
انکا کہنا تھا کہ امریکی عہدہ دار کابل ائیرپورٹ سے معاملات کنٹرول کررہا ہے اور اس وقت کابل میں پچاس کے لگ بھگ سفارتی عہدہ دار باقی رہ گیے ہیں۔
سی این این کے مطابق واشنگٹن آیندہ ۷۲ گھنٹوں میں تمام سفارت کاروں کو خارج کردیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ سے رابطہ اور حالات کا جایزہ لیا اور تشدد میں کمی کا مطالبہ کیا۔
امریکی نے سفارت کاروں کے انخلاء کے ساتھ دوبارہ افغانستان سے تعاون پر تاکید کی ہے۔
نیویارک ٹایمز کے مطابق امریکی نمایندے خصوصی زلمی خلیلزاد نے طالبان سے کہا ہے کہ وہ امریکی معاملات ختم ہونے تک کابل جانے سے گریز کریں۔
طالبان نے خلیل زاد سے کہا ہے کہ وہ امریکی ہوائی حملوں کو روک دیں۔
برطانیہ کی ہنگامی نشست
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کے مطابق تعطیلات کے باوجود اگلے ہفتے کو پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
برطانوی وزارت داخلہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے کام کرے گا۔
آسٹریا میں بھی حکام نے کہا ہے کہ وہ اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں افغانستان کے حوالے سے کانفرنس منعقد کرے گا۔
آسٹریا میڈیا کے مطابق ممکنہ طور پر کانفرنس آن لاین منعقد ہوگی۔
جرمنی نے بھی کابل میں سفارت خانہ بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپنے شہریوں سے واپسی کا کہا ہے۔
روسی حکام کے مطابق افغانستان کے حوالے سے سلامتی کونسل کا ہنگامی جلاس طلب کیا جایے گا۔
پاپ فرانسیس نے اس امید کا اظھار کیا ہے کہ افغانستان میں لوگ پرامن طریقے سے زندگی گزاریں گے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد حالات کا جایزہ لے رہا ہے اور وہ پر امن افغانستان چاہتا ہے اور وہ کسی خاص گروپ کی حمایت نہیں کرتا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ خارج ہونے والوں کی مدد کے لیے آمادہ ہے اور اس حوالے سے ویزا سیکشن کو خصوصی ٹاسک دیا گیا ہے۔/