انسانی حقوق اور مغربی دعویدار

IQNA

انسانی حقوق اور مغربی دعویدار

10:28 - November 05, 2022
خبر کا کوڈ: 3513046
امریکہ میں کالوں کے بچوں کے الگ سکول ، علیحدہ بسیں، ہسپتال، ہوٹل، کلب اور آبادیاں تک علیحدہ ہیں۔ امریکہ ہی کیا مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں کالی رنگت والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

ایکنا نیوز- گرچہ رسم کے طور پر اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ہر سال ایک دن کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور سب لوگ برس ہا برس سے انسانی حقوق کا عالمی دن منارہے ہیں لیکن اس کے باوجود نامعلوم کیا مجبوریاں ہیں کہ کمزور اور پسماندہ ممالک میں بالعموم اور اسلامی ممالک میں بالخصوص انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں اور ترقی یافتہ ممالک میں آزادی کے نام پر خواتین کی عصمت کی پامالی کا سلسلہ نہ رک سکا اور آج بھی انسان اپنے حقوق کے متلاشی ہے۔

 

غور کیجیے گا کہ آج بھی ترقی یافتہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے سب سے بڑے علمبردار ملک امریکہ میں انسانی حقوق کے معاملے میں پستی کا یہ عالم ہے کہ کالوں کے بچوں کے علیحدہ سکول ، علیحدہ بسیں، ہسپتال، ہوٹل، کلب اور آبادیاں تک علیحدہ ہیں۔ امریکہ ہی کیا مغربی یورپ کے کسی بھی ملک میں کالی رنگت والوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

فرانس، جرمنی سمیت اکثر اسلامی ممالک میں اسلامو فوبیا کا یہ عالم ہے کہ سرعام اربوں انسانوں کے نزدیک مقدس ترین کتاب کو سرعام نذر آتش کیا جاتا ہے خواتین کے سروں سے چادریں چھینی جاتی ہیں اور مسجد و داڑھی کی توہین تو معمول بن چکا ہے۔

 پڑوسی ملک بھارت جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ سیکولر ہونے کا بھی دعویدار ہے، وہاں ذات پات کے نام پر انسانوں پر ظلم و جبر صدیوں سے جاری ہے۔ جو اعلیٰ ذات کے گھرانے میں پیدا ہو گیا وہ چھوٹی ذات والوں پر ہر طرح ظلم روائ  رکھ سکتا ہے اور حالیہ مودی حکومت میں تمام حدیں پار کر دی گئی ہے۔

 

اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے متعدد اداروں کی قراردادوں کے حوالہ سے انسانی حقوق کا موجودہ فریم ورک جس فلسفہ حیات کی نمائندگی کرتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ عالم اسلام کے لیے قابل قبول نہیں ہے بلکہ کئی دیگر ممالک کے ساتھ چین و روس جیسے بڑے ممالک بھی اسے پوری طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے اور اس کے بارے میں وہ اپنے تحفظات رکھتے ہیں۔

یہ امر واضح ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ اب سے نصف صدی قبل جن حالات میں ترتیب پایا تھا وہ آج سے قطعی مختلف حالات تھے۔ پوری دنیا پر مغرب کی اجارہ داری تھی، عالم اسلام کے بیشتر ممالک استعماری قوتوں کے زیر تسلط تھے، اور اس وقت کی عالمی قوتوں نے مشرقی یورپ اور مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی الٹ پلٹ کے ساتھ آپس میں جو بندر بانٹ کر لی تھی اس کے بعد عالم اسلام اجتماعی طور پر کوئی آواز بلند کرنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ اسی طرح چین کو بھی عالمی بساط پر کوئی مو ¿ثر حیثیت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے مغربی اقوام نے اپنی اس حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخصوص فلسفہ حیات کو انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کی شکل دی اور دنیا کی دیگر بے بس اقوام سے اس پر دستخط حاصل کروا لیے جو اب تک ان قوموں اور ملکوں کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں۔ اور امریکہ اسی منشور کی آڑ میں دنیا کے جس ملک اور قوم کے خلاف اقوام متحدہ کی چھتری استعمال کرنا چاہتا ہے، کامیابی کے ساتھ کر لیتا ہے۔

 

اس بات سے قطع نظر کہ انسانی حقوق کے حوالہ سے مغربی ممالک نے ہمیشہ دہرا معیار رکھا ہے۔ یمن، شام، کشمیر، فلسطین، بوسنیا، چیچنیا، اور کوسووو میں انسانی حقوق کی پامالی امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی وہ توجہ کبھی حاصل نہیں کر سکی جو ان کے اپنے مفادات کے علاقوں میں ہمیشہ امتیازی حیثیت کی حامل رہی ہے۔

 کیا یمن میں لاکھوں یمنیوں کو موت زندگی کی کشمکش میں مبتلا کرنے والے سعودی عرب میں آمرانہ نظام سے چشم پوشی کرنا اور تمام تر انسانی حقوق کی خلاف روزی کرکے سعودی کو اسلحہ کی فروخت اور بعض اسلامی ممالک پر اسلحے کی فروخت پر پابندی کسی سے پوشیدہ ہے؟

شام میں ہزاروں دہشت گردوں کو قانونی شکل دیکر بشار اسد کی حکومت کو ختم کرانے کی سازش اور داعش جیسی تنظیم کے اراکین کو اسرائیلی ہسپتالوں میں علان کرانا انسانی حقوق کی پامالی نہیں۔

دور کیوں جائے یہی ہمارے پڑوس میں ایرانی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے کھلم کھلا دہشت گرد تنظیموں کی سرپرستی اور میڈیا پر بم بنانے کی تربیت دینے والے سوشل میڈیا کی حمایت جبکہ داعش جیسی تنظیم کے خلاف اہم ترین کمانڈر قاسم سلیمانی کی تصویر پر پابندی عجیب نہیں اور انہیں دنوں میں جب ایک طرف ایران سے ایٹمی مذاکرات کی بات کی جارہی ہے وہی دوسری جانب رژیم چینج کے لیے میڈیا وار اور ایران مخالف گروپوں کی سرعام سرپرستی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔

 

سینکڑوں ایٹم بم رکھنے والا اسرائیل جو کئی دہائیوں سے فلسطینوں کے حقوق کو پامال کررہا ہے انکی چشم بستہ حمایت اور فلسطینیوں کے دکھ درد سے لاتعلقی، برما میں ہزاروں روہنگیا کے موت پر خاموشی اور ایران میں ایک عورت کی موت کو بہانہ بنا کر ایران کے خلاف دنیا بھر کے میڈیا کو فعال کرنے والا امریکہ انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعویدار بھی ہے!

کون فراموش کرسکتا ہے کہ ایک عرب ملک میں انسانی حقوق کی پامالی پر جب انسانی حقوق کی تنظیموں اور دیگر اداروں نے کافی شکایتیں کی تو سعودی عرب کا نام بلیک لسٹ میں ڈالا گیا مگر کچھ ہی عرصے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری نے بے شرمی سے اعلان کیا کہ سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر امداد دی ہے جو ہمارے ورکروں کی تنخواہ کے لیے ضروری تھا لہذا سعودی عرب کا نام بلیک لسٹ سے خارج کیا جاتا ہے یعنی انسانی حقوق ڈالر کی محتاج ہے۔

 ہمارے نزدیک انسانی حقوق کا مغربی فلسفہ، اقوام متحدہ کا منشور، اور اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں کی قراردادوں کا موجودہ فریم ورک ہی سرے سے متنازعہ ہے۔ مثلاً نکاح و طلاق اور خاندانی نظام کے بارے میں اقوام متحدہ کے چارٹر نے جو اصول بیان کیے ہیں، قرآنی تعلیمات ان کو قبول نہیں کرتیں۔ اور اس چارٹر کو من و عن قبول کرنے سے کوئی بھی مسلمان فرد، خاندان، یا قوم بنیادی اسلامی تعلیمات سے منحرف قرار پاتی ہے۔

کونسا سا مسلمان ہم جنس بازی اور مرد کے مرد سے شادی کو درست تسلیم کرسکتا ہے مگر انسانی حقوق کے نام پر اس کو اسلامی ممالک پر زبردستی نافذ کرنے کی سازش جاری ہے اور ہمارے ہی ملک میں میرا جسم میری مرضی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

 اس کے علاوہ اور بھی دفعات اس چارٹر میں ایسی موجود ہیں جو اسلامی احکام و قوانین کی نفی کرتی ہیں۔ اور اب جبکہ عالم اسلام کے بیشتر ممالک آزاد ہو چکے ہیں، ان میں سے بہت سے ملکوں میں اسلامی نظام کے نفاذ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کی تحریکات مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں، دنیا کے نقشے پر بہت سی مسلم حکومتوں کے گریز اور تذبذب کے باوجود عالم اسلام ایک واضح بلاک کی شکل اختیار کرتا نظر آرہا ہے، اور مقاومتی بلاک کی کامیابیوں کے بعد طاقت کے عالمی توازن میں بھی عالم اسلام کی پوزیشن پہلے سے بہتر ہوگئی ہے۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ کا منشور اور اس کی آڑ میں امریکہ و دیگر مغربی ممالک کا طرز عمل پہلے سے زیادہ متنازعہ ہوتا جا رہا ہے، اور عالم اسلام کی دینی تحریکات اور اسلامی عناصر اس کی مسلسل نفی کر رہے ہیں۔

 

تین سال قبل اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کے موقع پر ملیشیا کے وزیراعظم جناب مہاتیر محمد نے مسلم ممالک کو تجویز دی تھی کہ وہ انسانی حقوق کے بارے میں مغربی ممالک کے دہرے معیار اور طرز عمل کے خلاف احتجاج کے طور پر اقوام متحدہ کی گولڈن جوبلی تقریبات کا بائیکاٹ کریں۔ لیکن ایک دو کے سوا کسی مسلم حکومت نے اس تجویز کا مثبت جواب نہیں دیا۔ اس موقع پر جناب مہاتیر محمد نے اقوام متحدہ کے منشور پر نظر ثانی کا مطالبہ بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ بدلتے ہوئے حالات اور نئے عالمی حقائق کے پیش نظر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کو ازسرِنو مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر یہ مطالبہ بھی صدا بصحرا ثابت ہوا تھا۔

 

اسلامی ممالک میں دہشت گردی پر چشم پوشی اور مغرب میں ایک پٹاخے پر آسمان سر پر اٹھانا، مساجد اور مدرسوں کو دہشت گردی کے مراکز قرار دینا مگر عراق و افغانستان پر بم باون بمبار طیاروں سے بم برسا کر ہزاروں مسلمانوں کو بھسم کرکے اسے مغربی جمہویت کا لازمہ قرار دیا، پاکستان و ایران میں معمولی ترین واقعات کو انسانی حقوق کی پامالی قرار دیکر جمہوری سسٹم سے متصادم قرار دینا اور عرب ممالک میں آمروں کی مظالم سے چشم پوشی کب تک قابل قبول رہ سکتا ہے؟ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت اسلامیہ کی عالمی قیادت بھی ان تبدیلیوں کو محسوس کرے اور نئے عالمی حقائق کے ادراک سے پیدا ہونے والی صورتحال سے استفادہ کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔

عراق، برما، فلسطین، یمن، کشمیر اور افغانستان کی زبوں حالی انسانی حقوق کے دعویداروں کی کارکردگی پر سب سے بڑا سوال ہے اور مزید یہ کہ ہم جنس پرستی، فحاشی اور لاابالی کو جموری کلچر قرار دیکر اسلامی حجاب اور مقدسات کی توہین کو انسانی حقوق کا نام دینا اور پھر مغربی دنیا کے میڈٰیا کا اس پر یلغار مزید قابل قبول نہیں اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا اپنے نظام، اقدام اور اصولوں کے لیے نئے سرے سے پالیسی مرتب کریں اور اس حوالے سے اسلامی دنیا کا اپنا مضبوط میڈیا سسٹم کا قیام ازحد ضروری ہے۔

تیرہ آبان کے حوالے سے ڈاکٹر ایم حسین کی خصوصی تحریر

نظرات بینندگان
captcha