ایکنا نیوز ایجنسی South China Morning Post،کے مطابق انڈونیشا میں شدت پسند گروپوں میں خواتین کی شمولیت کا چرچا عام ہے اور اکتوبر میں ایک مسلح خاتون نے صدارتی ہاوس میں رسائی حاصل کی تھی اور گذشتہ سال دو دہشت گردانہ واقعات میں خواتین شامل تھیں۔
شدت پسندی میں شمولیت میں اضافے کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین شدت پسندی روکنے میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔
گذشتہ سال سوفان(Soufan Centre)،نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ سال 2015 میں سب سے زیادہ انڈونیشیاء، ملایشیاء اور سنگار پور میں دہشت گرد خواتین گرفتار ہوئی۔
آسٹریلیا کی ڈیکین یونیورسٹی کے اسلامک پالیسی کے استاد گرگ بارٹون (Greg Barton)، کا اس بارے کہنا تھا: «داعش کے کاموں میں ایک نیا ایجاد یہ تھا کہ انہوں نے خواتین کو بھرتی کرنا شروع کیا.
تین سال قبل جب داعش کو شام میں شکست ہوئی تو بارٹن نے کہا تھا کہ جنوب مشرقی ایشاء میں داعش کا اثر کم ہے تاہم ہوسکتا ہے وہ یہاں سرگرمی تیز کریں.
بارٹون کا کہنا تھا کہ خؤاتین ان امور میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
گذشتہ سال انڈونشین حکام نے خبردار کیا تھا کہ 1980 سے 1996 تک پیدا ہونے والی نسل کے بچوں کو ۸۵ فیصد کو خطرات درپیش ہیں کہ وہ شدت پسندی کا رخ کرسکتے ہیں۔
انڈونیشیاء میں اقوا متحدہ کی خاتون نمایندہ جمشد کازی نے اس ملک میں شدت پسندوں میں خواتین کی بھرتی کا اقرار کرتے ہویے کہا تھا کہ خؤاتین امن و صلح میں اہم ترین کردار ادا کرسکتی ہیں۔
بنیاد وحید فاونڈیشن کے خؤاتین نے ایسے بیس مراکز کی حمایت کی ہے جہاں خواتین شدت پسندی سے مقابلے کے لیے کام کررہی ہیں۔/
4106305