ایکنا نیوز- آدم و حوّا خلقت کے بعد دو نوں جنت پہنچے۔ رب العزت نے انہیں کہا کہ جو یہاں جو نعمتیں موجود ہیں ان سے کھالو مگر اس ممنوعہ درخت کے پاس نہ جانا۔ تاہم شیطان نے انہیں دھوکہ دیا اور اس عصیان کی وجہ سے انہیں جنت سے نکال کر زمین پر بھیجا گیا۔
قرآن کریم آدم(ع) کے اس خطا کو «عصیان» سے تعبیر کرتا ہے: «وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ: آدم نے نافرمانی کی اور نادرست راستے پر پہنچے» (طه: 121). آدم(ع) پہلا نبی بنا اور شیعہ عقیدہ کے رو سے خدا کے تمام رسول ہر خطا سے پاک ہیں پس آدم کا یہ گناہ کیسا اور اسکی وضاحت کیسے ممکن ہے:
لہذا عصیان آدم(ع) کو حرام نافرمانی نہیں کہا جاسکتا، بلکه ایک مکروه عمل ہے مگر چونکہ انبیا خدا کے بہت مقرب ہیں لہذا ان سے ایسے عمل کی توقع نہی اور اس پر بھی انکا مواخذہ ہوتا ہے تاہم ایسے عمل عام آدمی سے انجام پایے تو کچھ نہیں ہوتا۔
قرآن میں کہا گیا ہے کہ خدا نے آدم(ع) کو خبردار کیا کہ «اے آدم! ابلیس تمھارا اور تمھاری اہلیہ کا دشمن ہے ایسا نہ ہو تمھیں جنت سے نکال دے اور سختی میں ڈال دے: فَقُلْنَا يَا آدَمُ إِنَّ هَٰذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقَىٰ» (طه: 117).